تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 29 نومبر، 2017

"عید میلاد خوبصورت تحریر پڑھیں حبیب الرحمن کے قلم سے


’’عید میلاد‘‘
تحریر:حبیب الرحمن
ربیع الاول اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ہے اور یہ وہ مہینہ ہے۔ جس میں نبی اکر م ﷺ ،خاتم الانبیاء،رحمت دو عالم حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کی ولادت ہوئی۔اس ماہ کا چاند نظر آتے ہی مساجد میں اعلانات کے ذریعے عید میلادالنبی کے نام پر مبارکبادیں دی جاتی ہیں۔ربیع الاول کی پہلی تاریخ سے ہی مساجد و مدارس کے اُلٹی ٹوپیاں اور برتن اُٹھا ئے مختلف راستوں میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور آنے جانے والوں سے نبی کے میلاد کے لئے پیسے مانگتے ہیں۔گلیوں ،محلوں ،گھروں یہاں تک کہ بازارون کو بھی ٹمٹماتی بتیوں ،اور چراغاں سے سجایا جاتا ہے۔گھروں ،گاڑیوں،سائیکلوں،موٹر سائیکلوں پر ،یہاں تک کہ بچوں کے ہاتھوں میں جھنڈیاں ہوتی ہیں جن پر حضور پاک ﷺ کی نعلین کا نقش اور کچھ پر خانہ کعبہ و مسجد نبوی کے نقوس مرتب ہوتے ہیں۔
یوں اس سلسلہ کے ساتھ 12ربیع الاول کا دن بھی آن پہنچتا ہے۔ایک دفعہ پھر وہی سلسلہ زور پکڑتا ہے بڑے بڑے کیک کاتے جاتے ہیں،مولوی تقاریر کرتے ہیں ،جلوس نکالے جاتے ہیں،سبیلیں لگتی ہیں ،منچلے،نوجوان دن کے وقت پگڑیاں باندھ کر نقلی ڈاڑھی مونچھیں لگا لیتے ہیں۔مختلف جگہوں اور جلوسوں میں خانہ کعبہ،روضہ رسول ﷺ کے ماڈل ،کھلونے اور پہاڑیوں کی نمائش لگتی ہے۔جنہیں مرد وزن بلاامتیاز دیکھتے ہیں۔گاڑیوں، رکشوں اور موٹر سائیکلوں پر ساؤنڈ سپیکر باندھ کر میلاد کے حوالے سے نغمے اونچی آواز میں چلائے جاتے ہیں بہت سارے لوگ اس میں شمولیت کرتے ہیں۔
اگر کوئی شخص ان رسومات میں حصہ نہ لے تو اسے گستاخ رسول ﷺ سمجھا جاتا ہے۔پھر دکان دار قسم کے مُلا حضرات ایسے اشخاص سے اپنے انتقامی جذبات کی تسکین بھی اسی بہانے سے کر لیتے ہیں،جلوس کے ذریعے اس شخص کے گھر یا دکان کے سامنے یا پھر گلی میں رک کر اونچی آواز میں مختلف نعرے لگا کربد اخلاقی کا شبوت دیتے ،اور بعض اوقات اسی معاملہ پر ہنگامہ آرائی بھی ہو جاتیز ہے۔
عید میلاد ہر سال مختلف طریقوں اور ڈھنگوں سے منا تو لی جاتی ہے مگر اس عید کی ابتدا ہے کیسی۔۔؟آئیے تاریخ سے پوچھتے ہیں۔۔۔
نبی اکرم ﷺ کی ولادت ہوئی،چالیس سال کی عمر میں نبوت ملی 33مرتبہ ان کی زندگی میں دن آیا۔خلفائے راشدینؓ حضور ؐ سے بڑی محبت کرنے والے تھے،روسول اکرم ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکرؓ کے دور خلافت میں دو مرتبہ یہ دن آیا،حضرت عمرؓ کے دور میں دس مرتبہ،حضرت عثمانؓ کے دور میں گیارہ مرتبہ اور حضرت علیؓ کی خلافت میں پانچ مرتبہ یہ دن آیا۔صحابہؓ کے بعد آخری تابعی 180ھجری میں فوت ہوئے،پھر تبع تابعین کا دور شروع ہوتا ہے جو 220ھجری میں ختم ہوا ۔پھر آئمہ کرام کا دور شروع ہواآخری امام 241ھجری فوت ہوئے مگر اس وقت تک میلاد النبی کا نشان تک نہیں ملتا۔یعنی نہ تو خود حضور اکرم ﷺ نے یہ دن منایا اور نہ ہی صحابہ کرامؓ نے۔۔نہ ہی اس طرح جشن،جھنڈیاں،چراغاں اور جلوس نکالے گئے۔۔۔آج ہم سب مل کر صحابہؓ کی محبت کا مقابلہ نہیں کر سکتے اگر واقعی یہ دن کوئی حقیقت رکھتا تو صحابہ کرامؓ اس موقع کو ہاتھ نہ جانے دیتے۔(تاریخ ابن خلکان)
’’میلادالنبی ﷺکی ابتدا سب سے پہلے 604ھجری میں اربل شہر کے گورنر ملک المعظم مظفرالدین کوکبوری نے کی۔ہر سال وہ اس محفل نہایت شان وشوکت سے مناتا،مختلف قسم کے شاعر،واعظ اور گویے گورنر کو خوش کرنے کے لئے اس محفل میں شمولیت کرتے۔شاہِ اربل اس محفل میں گانے سنتااور کبھی کبھی مست ہو کر ان گویوّں کے ساتھ رقص بھی کرتا۔یوں ہر سال وہ محفل میلاد پر تیس لاکھ ڈالر خرچ کرتا۔
لاہور میں سب سے پہلے میلاد کا جلوس 5جولائی1933ء بمطابق بارہ ربیع الاول 1352ھ کو نکلا۔عملی طور پرجلوس کی قیادت انجمن فرزندان توحید موچی گیٹ کے سپرد ہوئی،جس میں حافظ معراج دین،حکیم معین الدین،بابو سراج الدین،شاہ الدین،اسلم مستری،حسین بخش،چوہدری فتح محمد،ملک محمد الدین،بیرسٹر حکیم الدین،مہر معراج دین اور میاں فیروز الدین احمد(مسلم لیگی لیڈر جنہوں نے مسٹر جناح کو قائد اعظم کا لقب دیا)اور دیگر نوجوان شامل تھے ‘‘ (روزنامہ مشرق مجریہ26 جنوری1984ء ،مصطفی کمال پاشا کا مضمون)
ہندوستان میں بارہ ربیع الاول کو عید میلاد النبی ﷺ کی بجائے 12وفات کے نام سے یاد کیا جاتا تھا،مگر بعد میں پیر جماعت علی شاہ ،مولانا محمد بخش مسلم،نور بخش توکلی اور دیگر علماء نے قراردکے ذریعے میلاد النبی کا نام دیا۔
خیر اگر میلاد سے رسول اللہ ﷺکی پیدائش پر اظہار تشکر مقصود ہے تو جس طرح حضور ﷺ نے روزہ رکھ کر شکرانہ ادا کیا ہم بھی اسی طرح روزہ رکھا کریں۔اگر ولادت سبب بنی ہے رسالت کا تو پھر نبی کے والد عبداللہ کا بھی میلاد منایا چاہئے کہ وہ سبب بنے ہیں نبی ﷺ کی ولادت کا۔اگلی بات یہ کہ میلاد النبی ہر سال بارہ ربیع الاول کو منایا جاتا ہے،مگر شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اپنی تصنیف’’ غنیہ الطالبین ‘‘میں نبی ؐ کی ولادت کا دن دس محرم الحرام قرار دیا ہے،تو یوں پیر صاحب کی حکم عدولی بھی ہو رہی ہے۔فرمانبرداری تو تب ہو اگر دس محرم کو بھی میلاد کا جلوس نکالا جائے۔
آج کل جو چیزیں عیدمیلادالنبی میں نظر آتی ہیں،وہ ہیں شہنائیاں،ڈھولکیاں،نقلی ڈاھی مونچھیں،ڈانس پارٹیاں اور قوالیاں۔۔۔آہ۔نعرہ تکبیر اور جمالو اکٹھا ہو گیا،رقص کے زاویوں اور نعت خوانی میں فرق ختم ہو گیا۔اگر ان چیزوں کانام محبت مصطفیﷺہے ،تو پھر رسول اللہ کی نافرمانی کس کا نام ہے۔۔
محبت کا معیا رنعرہ بازی نہیں ،اور نہ ہی عشق کا تقاضریا کاری اور دکھلاوا ہے۔محبت رسولﷺ کا نعرہ لگانا تو آسان ہے مگر محب بننا مشکل۔۔اگر محب بننا ہے تو صحابہ کرامؓ کی والہانہ عقیدت ومحبت سے سبق لینا ہو گا۔محبت موسمی چیز نہیں کہ ربیع الاول میں تو سیلاب بن کر آئے اور باقی سارا سال احساس تک نہ ہو۔
تاریخ سے یہ ثابت ہوا کہ میلادالنبی کے جلوس کی رسم کی جائے پیدائش موچی گیٹ لاہور اور اس کی تاریخ ولادت 1933ء ہے اور آج 2017ء لہٰذا اس رسم کی کل عمر تقریباََ 84سال ہو چکی ہے۔لہٰذا بھائیوں اس سال میلا دکا میلاد بھی تو منانا چاہئے۔ ( حوالہ جات از:اسلامی مہینے و رسومات مروجہ)
بج رہے ہیں ڈھول ،تاشے ،تالیاں،چمٹے،رباب 
کس مزے سے عید میلاد النبی ؐکے نام پر 
کٹ کھنوں میں ہے میر اُمم کا تذکرہ 
عرش عظیم کانپ رہا ہے اس مذاق عام پر

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دینے کا بہت شکریہ

Post Top Ad

Your Ad Spot

صفہ اول